**حکیم محمد اختر: ایک عظیم صوفی مرشد اور عالم**
حکیم محمد اختر، ایک معروف پاکستانی عالم، مصنف، شاعر، اور صوفی مرشد تھے، جنہوں نے 1928ء میں پرتاپ گڑھ، اتر پردیش، برطانوی ہند میں جنم لیا۔ آپ کی زندگی کا ایک بڑا حصہ دینی تعلیم و تربیت اور تصوف کے فروغ کے لیے وقف رہا۔
ابتدائی زندگی اور تعلیم
حکیم محمد اختر صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی ابتدائی تعلیم پرتاپ گڑھ میں ہوئی، جہاں انہوں نے فارسی کی تعلیم قاری محمد صادق سے حاصل کی۔ بعد ازاں، انہوں نے اسٹیٹ یونانی میڈیکل کالج الہ آباد سے 1944ء میں طب یونانی کی تعلیم مکمل کی۔ اس کے بعد آپ نے مدرسہ بیت العلوم سرائے میر سے درس نظامی کی تکمیل کی، جہاں سے آپ نے علوم اسلامیہ میں دسترس حاصل کی۔
تصوف کی راہ
حکیم محمد اختر بچپن ہی سے تصوف کی جانب مائل تھے۔ آپ نے اپنے وقت کے بڑے بڑے صوفیائے کرام جیسے حضرت مولانا شاہ عبد الغنی پھولپوری، حضرت مولانا شاہ ابرار الحق حقی، اور حضرت مولانا شاہ محمد احمد پرتاپ گڑھی سے فیض حاصل کیا۔ آپ حضرت مولانا شاہ ابرار الحق کے خلیفہ مجاز بھی تھے اور تصوف کے چار بڑے سلسلوں یعنی اشرفیہ، چشتیہ، نقشبندیہ، قادریہ، اور سہروردیہ میں فیض یافتہ تھے۔
تصانیف اور علمی خدمات
حکیم محمد اختر کی علمی خدمات میں آپ کی تحریریں اہم مقام رکھتی ہیں۔ ان کی مشہور تصانیف میں "معارف مثنوی"، "فیضان محبت"، "تجلیات جذب"، اور "روح کی بیماریاں اور ان کا علاج" شامل ہیں۔ "معارف مثنوی" مثنوی مولانا روم کی اردو شرح ہے، جو آپ کی علمی قابلیت اور صوفیانہ بصیرت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
وفات
حکیم محمد اختر کی وفات 2 جون 2013ء کو کراچی میں ہوئی۔ ان کی وفات سے صوفیانہ دنیا میں ایک بڑا خلا پیدا ہو گیا، لیکن ان کی تصانیف اور علمی ورثہ آج بھی لوگوں کے لیے مشعل راہ ہے۔
یادگار
حکیم محمد اختر کے روحانی اور علمی خدمات کا اعتراف آج بھی کیا جاتا ہے۔ ان کی تعلیمات اور تصانیف لوگوں کو راہِ ہدایت دکھانے کا ذریعہ بنی ہوئی ہیں۔ ان کی زندگی اور تعلیمات پر تحقیق کرنے والے ان کے علمی ورثے کو دنیا بھر میں عام کرنے کی کوششیں کر رہے ہیں۔
یہ مضمون حکیم محمد اختر کی زندگی اور خدمات پر ایک مختصر مگر جامع نظر ڈالنے کی کوشش ہے۔ ان کی زندگی کا ہر پہلو دین اسلام کے فروغ اور تصوف کی اشاعت کے لیے وقف رہا، جو آج بھی اہلِ دل کے لیے مشعل راہ ہے۔
0 Comments